وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
نیز آپ طور کے کنارے پر بھی نہ تھے جب ہم نے (موسیٰ کو)[٦١] ندا کی تھی، لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے (کہ اس نے آپ کو یہ سچی غیب کی خبریں دیں) تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی [٦٢] ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ شاید وہ نصیحت قبول کریں۔
9۔ یعنی کوہ طور پر۔ مناجاۃ۔ اور کلام کے طورپ ر۔ اللہ تعالیٰ کے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو پکارنے کا قرآن حکیم میں کئی جگہ ذکر ہے۔ اسی کے مشابہ وہ آیت ہے جو ابھی اوپر گزر چکی ہے یعنی : وما کنت بجانب المغربی اذ قضینا الی موسیٰ الامر بعض علما نے یہاں ندا اور قضا کا مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو خبر دی کہ محمد (ﷺ) کی امت خیر الامم ہے واللہ اعلم۔ (قرطبی۔ ابن کثیر) 10۔ حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) تک جتنے پیغمبر اولاد ابراہیم میں آئے، بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوتے رہے۔ بنو اسماعیل یعنی عرب کے لوگ) ایسے تھے جن کی طرف حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد نبیﷺ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جگہ موجود نہ تھے کہ ان واقعات کا خود مشاہدہ کرلیتے۔ یہ واقعات ہم نے محض اپنی رحمت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی کئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرب کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔