وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(اے پیغمبر) جو لوگ ایمان [٣٠] لائیں اور اچھے کام کریں انہیں خوشخبری دے دیجئے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جب بھی انہیں کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے ’’یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں اس سے پہلے (دنیا میں) دیئے جا چکے ہیں۔‘‘ کیونکہ جو پھل انہیں دیا جائے گا وہ شکل و صورت [٣١] میں دنیا کے پھل سے ملتا جلتا ہوگا۔ نیز ان (ایمان والوں) کے لیے وہاں پاک و صاف [٣٢] بیویاں (بھی) ہوں گی۔ اور وہ ان باغات میں ہمیشہ قیام پذیر رہیں گے
ف 7 کفار کو تہدید کے بعد اب ترغیب دی جا رہے ہے اور قرآن میں عمو ما یہ دونوں مقردن ہیں۔ اس اسلوب بیان کی وجہ سے اسے المثانی کہا جاتا ہے ( ابن کثیر) ایمان کے ساتھ عمل صالح کی تصریح سے مقصد یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لیے عمل صالح بھی ضروری ہے۔ کسی عمل کے صالح ہونے کے یہ معنی ہیں کہ خلوص نیت کے ساتھ ہو اور سنت کے مطابق ہو۔ سنت کی مخالفت سے نیک عمل بدعت بن جاتا اور عدم خلوص سے نفاق پیا ہوتا ہے۔ اسی کو دوسرے الفاظ میں اسلام اور احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ (دیکھئے حاشیہ آیت 112) نفاق اور بدعت سے عمل برباد ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) ف 8 دینا کے میووں کے ہم صورت ہوں گے یا آپس میں ہم شکل ہوں گے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنت کی نعمتوں کے نام تو دنیا والے ہی ہوں گے مگر ان کی حقیقت سے آگاہی ناممکن ہے حدیث میں : مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر۔ نہ ان کو آمکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال ہی آیا۔ ( ابن کثیر) ف 9 یعنی جنتی عورتیں ہر قسم کی ظاہر اور باطنی آلائشوں سے پاک و صاف ہوں گی۔ (ابن کثیر) ف 10۔ یہاں خلود کے معنی ہمیشگی کے ہیں اور یہی اس حققی معنی ہیں۔ (قرطبی)