فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا قَالَ يَا مُوسَىٰ أَتُرِيدُ أَن تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ ۖ إِن تُرِيدُ إِلَّا أَن تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ
پھر جب موسیٰ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے تو وہ پکار اٹھا : موسیٰ ! کیا تم مجھے بھی مار دالنا چاہتے ہو۔ جسے کل تم نے ایک آدمی کو [٢٩] مار ڈالا تھا ؟ تم تو ملک میں جبار بن کر رہنا چاہتے ہو۔ اصلاح نہیں کرنا چاہتے۔
7۔ ” تو وہ کہنے لگا“ میں ” وہ“ سے مراد جمہور مفسرین (رح) نے اسرائیلی لیا ہے کیونکہ جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے قبطی کو پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو وہ سمجھا کہ شاید مجھ ہی کو پکڑ کر مارنا چاہتے ہیں۔ اس پر اس نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے یہ الفاظ کہے۔ جن مفسرین (رح) نے یہ مطلب لیا ہے اہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس وقت تک اس اسرائیلی اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے سوا کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ کل جو قبطی قتل ہوا ہے اس کا قاتل کون ہے اور قاتل کی تلاش ہو رہی تھی۔ اب جب کہ اس دوسرے قبطی نے اسرائیلی کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو اس نے جا کر فرعون کو اطلاع کردی مگر سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ” وہ“ سے مراد قبطی ہے اور ممکن ہے اس قبطی کو اس اسرائیلی کے ذریعہ معلوم ہوگیا ہو۔ یا وہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے اس اسرائیلی کو ” غوی مبین“ کہنے سے سمجھ گیا ہو کہ کل جو شخص قتل ہوا تھا اس کے قاتل حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) تھے۔ (شوکانی) 8۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) سے یہ بات بھی قبطی ہی کہہ سکتا تھا جو کافر تھا نہ کہ اسرائیلی جو مومن تھا۔ (شوکانی )