فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
چنانچہ (اس طرح) ہم نے موسیٰ کو اس کی والدہ ہی کی طرف لوٹا دیا تاکہ وہ [١٩] اپنی آنکھ ٹھنڈی کرے اور غمزدہ نہ رہے اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اکثر لوگ [٢٠] یہ بات نہیں جانتے۔
6۔ بیچ میں ذکر چھوڑ دیا گیا کہ اس کے بعد فرعون کے گھر والوں نے حضرت موسیٰ کی بہن سے پچھا کہ ” وہ کون گھر والے ہیں؟“ اس نے جواب دیا ” میری ماں“” انہوں نے کہا :” اس کے دودھ کہاں سے آیا؟ وہ بولی ” میرے بھائی ہارون کا دودھ ہے“ آخر اس کی والدہ کو بلایا گیا اور جونہی انہوں نے بچہ کے منہ سے اپنی چھاتی لگائی بچہ خوش ہو کر دودھ پینے لگا۔ پھر وہ بچے کو اپنے گھر لے آئیں اور وہیں رہ کر ان کی پرورش کرنے لگیں۔ اس طرح حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اپنی ماں کے پاس واپس پہنچ گئے۔ (قرطبی) 7۔ جو اس نے فرمایا تھا کہ ہم موسیٰ ( علیہ السلام) اور واپس تیرے پاس بھجوا دینگے۔ حدیث میں ہے :” جو شخص اپنی روزی کمانے کے لئے کام کرے اور اس کام میں اس کے پیش نظر اللہ کی خوشنودی ہو اس کی مثال حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ کی ہے جو اپنے بیٹے کو دودھ بھی پلاتی تھیں اور اجرت بھی پاتی تھیں۔ (ابن کثیر) 8۔ یعنی تقدیر الٰہی کی حکمتوں کو نہیں سمجھتے۔ چنانچہ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہجونہی کسی کام میں کوئی پیچ پڑجاتا ہے اللہ تعالیٰ سے بدظ ہوجاتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر یقین نہیں رہتا۔ حالانکہ اس کا وعدہ خلاف نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ اسباب کو کچھ اس طرح پھیر کر لاتا ہے جو انسانی سمجھ سے باہر ہے اور جس چیز کا گمان بھی نہیں ہوتا اسے ظاہر کرتا ہے۔ (وحیدی)