إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
بلاشبہ یہ قرآن بنی اسرائیل پر اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جن میں وہ [٨٠] اختلاف رکھتے ہیں
9۔ یہود اور نصاریٰ بہت سے فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ اس بنا پر ان کے درمیان سخت اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو یہودی جھوٹا اور ولدالزنا کہتے تھے اور نصاریٰ نے یہاں تک غلو کیا کہ وہ انہیں خدا کا بیٹا سمجھ بیٹھے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے امور تھے جن میں ان کے درمیان سخت اختلافات پائے جاتے تھے ان میں حق اور اعتدال کی راہ قرآن نے واضح کی۔ جو قرآن کی حقانیت کی دلیل ہے۔ اگر وہ اس راہ کو اختیار کرتے تو ان میں ہرگز کوئی اختلاف نہ رہتا اور ان کی سب فرقہ بندی ختم ہوجاتی۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں : مبداء و معاد کے اثبات پر گفتگو کرنے کے بعد اب نبوۃ کے متعلق بحث شروع کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے اثبات میں چونکہ قرآن ہی سب سے بڑی دلیل ہے اس لئے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا۔ (کبیر)