حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
یہاں تک جب وہ چیونٹیوں کی ایک وادی پر پہنچے تو ایک چیونٹی [١٩] بول اٹھی، ''چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تمہیں روند ڈالیں اور انہیں [٢٠] پتہ بھی نہ چلے۔
2۔ جہاں چیونٹیوں کی بڑی کثرت تھی۔ اس وادی کی جگہ بعض نے طائف اور اکثرے شام بتائی ہے۔ (شوکانی) 3۔ اور چیونٹیوں کا گفتگو کرنا عقلاً مستبعد نہیں ہے۔ (کبیر) بلکہ قرآن نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ اگر ان کی یہ تسبیح زبان قال کی بجائے زبان حال پر محمول ہو تو اسے تو ہم سمجھتے ہیں لیکن حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا اس چیونٹی کی گفتگو کو سمجھ لینا اس خاص علم کی بنا پر تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا تھا اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام) اسے بطور نعمت الٰہی کے بیان کر رہے ہیں مگر ہمارے زمانہ کے بعض ” ماڈرن“ مفسرین جنہیں قرآن میں معجزات کے ذکر سے شرم آتی ہے اس آیت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہاں ” نمل“ سے مراد چیونٹیاں نہیں بلکہ انسانوں کا ایک قبیلہ مراد ہے جس کا نام ” بنو نمل“ تھا اور جو چیونٹیوں کی طرح بکثرت اس وادی میں پھیلا ہوا تھا۔ جب حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کا لشکر اس وادی میں پہنچا تو اس کے ایک فرد نے اپنے قبیلہ کے دوسرے لوگوں سے کہا : ” اے قبیلہ نمل کے لوگو۔“ لیکن یہ تاوی دراصل قرآن کی تحریف ہے کیونکہ اس صورت میں آیت کا تعلق نہ اس ” علم“ سے رہتا ہے جس کا ذکر پچھلی آیت میں بڑی اہمیت سے کیا گیا ہے اور نہ تاریخی طور پر یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ شام یا طائف میں اس نام کا کوئی انسانی قبیلہ آباد تھا۔ محض من مانی تاویل کرنے کے لئے یہ بے بنیاد بات گھڑی گئی ہے۔