وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں، ہم پر فرشتے کیوں نہیں اترے یا ہم ہی اپنے پروردگار کو (آنکھوں سے) [٢٩] دیکھ لیں؟ یہ اپنے دل میں بہت بڑے بن بیٹھے ہیں اور بہت بری سرکشی میں مبتلا [٣٠] ہوچکے ہیں۔
1۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے :… او تاتی باللہ والملائکۃ قبیلا… یا تم اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے نہ لے آئو۔ (اسرا :92) دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح پیغمبروں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی فرشتے کیوں نہیں آتے؟ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے : قالا لن نومن حتی …مثل ما اولی رسل اللہ۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمیں بھی ویسی ہی چیز (یعنی رسالت) نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی۔ دیکھئے سورۃ انعام آیت 124۔ (ابن کثیر) 2۔ یعنی یہ اپنی دانست میں اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے۔ اس لئے ان میں اتباع حق سے بے نیازی کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ یا یہ کہ ” استکبار“ یعنی کفر و عناد اپنے دلوں میں چھپا رکھا ہے۔3۔ ” سرکشی میں حد سے گزر گئے۔“ یعنی پیغمبر کی تکذیب کی اور ایسی باتوں کا مطالبہ کیا جو اولوالعزم پیغمبروں میں کسی کو ہی حاصل ہو سکتی ہیں پھر اس سے بڑھ کر اور کیا سرکشی ہوگی۔