قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا
وہ کہیں گے'': تیری ذات پاک ہے ہماری مجال نہ تھی کہ تیرے سوا کسی کو کارساز [٢١] بناتے مگر تو نے انھیں اور ان کے آباء و اجداد کو خوب سامان زیست [٢٢] دیا۔ یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے اور یہ لوگ تھے ہی ہلاک ہونے کے قابل۔
4۔ تاکہ ان کی عبادت کرتے اور اسی طرح جب ہم خود توحید پر قائم تھے تو تیرے بندوں سے اپنی عبادت کیسے کرا سکتے تھے؟ (ابن کثیر) 5۔ یعنی یہ کمینے لوگ تھے بجائے اس کے کہ شکر گزار ہوتے، تیری نعمتیں پا کر عیش میں پڑگئے۔ (نیز دیکھئے انبیاء آیت :44) 6۔ ” سویہ ٔ تو مرکھپ کر (تباہ ہو کر) رہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن انبیاء و اولیاء کی یہ پوجا کرتے رہے ہیں ان کی نذریں مانتے رہے ہیں اور اٹھتے بیٹھتے ان کا نام لیتے ہیں۔ قیامت کے دن وہ یہ جواب دینگے یعنی سبحانک اللہ (فتح البیان)