لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(مسلمانو)! رسول کے بلانے کو ایسا نہ سمجھ لو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے [١٠٠] کو بلاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جانتا ہے جو تم میں سے چپکے سے [١٠١] کھسک جاتے ہیں لہٰذا جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں [١٠٢] انھیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوجائیں یا انھیں کوئی دردناک عذاب پہنچ جائے۔
ف7۔ یعنی معمولی نہ سمجھو کہ جی چاہا آگئے اور جی میں آیا تو نہ آئے بلکہ ان کی دعوت پر لبیک کہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے سے فرض ہوتا تھا حاضر ہونا جس کام کو بلاویں۔ پھر یہ بھی تھا کہ بے حکم چلے نہ جاویں۔ یا آیت کے معنی یہ ہیں کہ : ” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کو عام لوگوں کی سی دعا نہ سمجھو“۔ یا ” رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے نہ پکارو جیسے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے ہیں“ یعنی آواز دھیمی رکھ کر نہایت ادب و احترام سے پکارو۔“ ” دُعَاءَ الرَّسُولِ “ کے یہ تینوں معنی مفسرین نے بیان کئے ہیں اور تینوں موقع و محل کے لحاظ سے صحیح ہے۔ (شکانی) ف8۔ یہ منافقین کا شیوہ تھا جیسا کہ متعدد روایات میں اس کا ذکر ہے۔ ف 9۔ آیت میں لفظ ” فتنہ“ کو غیر مقید رکھا گیا ہے۔ مفسرین میں سے بعض نے اس سے مراد قتل۔ بعض نے زلزلہ اور بعض نے ظالم حکمرانوں کا تسلط لیا ہے اور ” يُخَالِفُونَ “ چونکہ معنی اعراض کو متضمن ہے اس لئے اس کا صلہ عن لایا گیا ہے۔ (شوکانی) ف1۔ یہاں لفظ ’ او‘ منع الخلو کے لئے ہے۔ پھر جب صرف ایک معاملہ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم اطاعت پر یہ وعید سنائی گئی ہے تو ان لوگوں کو اپنے معاملہ پر ضرور غور کرنا چاہئے جنہوں نے رسول کو سرے سے اطاعت کا مستحق ہی نہیں سمجھا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بے نیاز ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔