وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اور جب لڑکے سن بلوغ [٨٩] کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اس طرح اذن لیا کریں جیسا کہ ان سے پہلے (ان کے بڑے) اجازت لیتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے اپنے احکام کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔
ف4۔ یا جس طرح وہ لوگ اجازت لیتے ہیں جن کا ذکر پہلے (آیت 27 میں) ہوچکا ہے۔ الغرض بلوغت کے بعد ہر حال میں اجازت لیکر آنا ضروری ہے۔ پھر ان تین اوقات کی تخصیص نہیں ہے۔ (ابن کثیر) عطا بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ سے دریافت کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا میں اپنی ماں کے پاس بھی اجازت لے کر جایا کروں؟ فرمایا : ” ہاں“ اس نے کہا۔ ” میں تو اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں۔“ فرمایا :” تب بھی اجازت لیکر جایا کرو۔ ماں کو برہنگی کی حالت میں دیکھنا چاہتے ہو؟“ اس نے جواب دیا۔ ” نہیں“۔ فرمایا تو اجازت لے کر جایا کرو۔ (شوکانی)