وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِندَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
اور جو کافر ہیں ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل میدان میں کوئی سراب [] ہو جسے پیاسا پانی سمجھ رہا ہو۔ حتی کہ جب وہ اس سراب کے قریب آتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں پاتا۔ بلکہ اس نے اللہ کو وہاں موجود پایا جس نے اس کا حساب چکادیا اور اللہ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی۔
1۔ کفروا اوپر مومنوں کے اعمال کی حالت بیان کی ہے اور اب یہاں کفار کے اعمال کی حالت بیان کی جا رہی ہے لہٰذا یہ ایک قصے کا عطف دوسرے قصہ پر ہے۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ میں منافقین کی دو مثالیں بیان فرمائیں۔ ایک پانی کی اور دوسری آگ کی، اور پھر سورۂ رعد میں اس علم و ہدایت کی آگ اور پانی سے دو مثالیں بیان فرمائیں جو لوگوں کے دلوں میں قرار یاب ہوتا ہے۔ اب یہاں دو قسم کے کفار (ایک لیڈر اور دوسرے ان کے مقلدین) کی دو مثالیں بیان کی جا رہی ہیں ایک سراب اور دوسری ظلمات کی۔ پہلی مثال ان کفار کی ہے جو کفر کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اپنے اعمال و اعتقادات کو قابل اعتماد سمجھتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ آخرت میں ان کی بہتر جزا ملے گی مگر دراصل ان کے اعمال سراب کی طرح بے حقیقت ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جہل مرکب میں مبتلا ہیں اور آگے ان لوگوں کی مثال ظلمات سے بیان کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلاہیں اور ائمہ ٔ کفر کی تقلید کر رہے ہیں۔ (ابن کثیر) یہاں کفارکے اعمال ہی کی دو مثالیں بیان کی ہیں۔ پہلی مثال کا تعلق وجدان سے ہے اور دوسری کا رؤیت سے۔ امام جرجانی (رح) فرماتے ہیں۔ پہلی مثال کفار کے اعمال کی ہے جو اپنے گمان کے مطابق کچھ نیک اعمال، صدقہ و خیرات، خدمت بیت اللہ وغیرہ) کرتے ہیں۔ اس امید پر کہ آگے چل کر یہ ہمارے کام آئیں گے۔ مگر جب آخرت میں پہنچیں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان نیکیوں کی کچھ حقیقت نہیں۔ اور دوسری مثال نفس کفر کی ہے۔ پھر ان کفار کے حکم میں وہ فلاسفہ بھی داخل نہیں ہیں جو اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں مگر ان کے عقائد و اعمال شریعت کے منافی ہیں۔ (شوکانی، شرح) واضح رہے کہ کفار کے اعمال کی تمثیل ” لم یجدہ شیئا“ پر تمام ہوجاتی ہے اس کے بعد ووجد انہوں نے بطور تکملہ ان کے بقیہ احوال کا بیان ہے۔ یعنی صرف اسی پر بس نہیں ہے کہ صرف یاس و قسوط اور ناکامی کا سامنا ہوگا بلکہ وہاں محاسبۂ الٰہی سے انہیں ایسی بدحالی سے دوچار ہونا پڑے گا کہ اس کے مقابلے میں یاس و ناکامی کی کچھ حیثیت نہیں رہے گی۔ (روح)