يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا [٣٢] دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا [٣٣] حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے [٣٤] حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔
2۔ ” حتی تستانسوا“ کا لفظی ترجمہ ہے :” یہاں تک کہ تم انس حاصل کرلو۔“ اس لئے اس میں نہ صرف اجازت حاصل کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے بلکہ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ تم معلوم کرلو کہ گھر میں کوئی ہے بھی یا نہیں اور ہے تو اسے تمہارا آنا ناگوار تو نہیں ہے؟ اور یہ اجازت تین مرتبہ لینی چاہئے اور پھر بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانا چاہئے اور اجازت مانگنے کے آداب میں یہ بھی ہے کہ دروازے کے سامنے کھڑا نہ ہو بلکہ دائیں یا بائیں کھڑے ہو کر اور السلام علیکم کہہ کر اجازت طلب کرنی چاہئے۔ ابو دائود میں ہے کہ ایک شخص نبیﷺ کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے پر کھڑا ہو کر اجازت مانگنے لگا۔ نبیﷺ نے اس سے فرمایا : ” پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اسی لئے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔ صحیحین میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں بغیر اجازت کے جھانے اور تم ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ (ابن کثیر) 3۔ یعنی ان آداب میں دونوں طرف کا فائدہ ہے اجازت مانگنے والے کا بھی اور گھر والوں کا بھی۔ (ابن کثیر)