وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ
اور پانچویں دفعہ یوں کہے کہ ''اگر مرد (اس کا خاوند) سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل [١٠] ہو''
3۔ جب اوپر کی آیت میں حد قذف نازل ہوئی تو اس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ اگر کوئی شخص خود اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو اس کا کیا حکم ہوگا۔ چنانچہ یہ سوال سعد بن عبادہ نے ایک فرضی سوال کی حیثیت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا۔ (بخاری، مسلم) مگر جلدی ہی ہلال (رض) بن امیہ کا واقعہ پیش آگیا۔ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی بیوی کے متعلق بتایا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اس کو زنا کرتے دیکھا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” چار گواہ لائو ورنہ حد قذف تم پر جاری کی جائے گی۔“ اس پر یہ چار آیتیں نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان آیات کے مطابق تصفیہ…لعان… کے لئے ہلال (رض) اور ان کی بیوی کو بلایا۔ چنانچہ پہلے ہلال نے قسمیں کھا کر گواہی پیش کی اور پھر اس کی بیوی نے۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کرا دی اور فرمایا کہ حمل جو عورت کے پیٹ میں ہے اس کی ماں کی طرف منسوب ہوگا اور عورت کا زمانۂ عدت کے نفقے اور سکونت کا کوئی حق ہلال (رض) پر نہ ہوگا کیونکہ یہ طلاق یا وفات کے بغیر جدا کی جا رہی ہے۔ (ابن کثیر)