الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ
زانی عورت ہو یا مرد، ان میں سے ہر ایک کو سو درے [٣] لگاؤ، اور اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ [٤] تمہیں ان دونوں (میں سے کسی) پر بھی ترس نہ آنا چاہئے۔ اور مسلمانوں میں سے ایک گروہ ان کی سزا [٥] وقت موجود ہونا چاہئے۔
9۔ شروع اسلام میں زنا کی کوئی باقاعدہ حد مقرر نہ تھی۔ بلکہ زانی اور زانیہ کو قید رکھنے یا ان کی پٹائی کرنے کا حکم تھا۔ یہاں تک کہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے بارے میں کوئی دوسرا راستہ نکال دے یعنی شرعی حد مقرر کر دے۔ (دیکھئے نساء :16۔17) اس آیت میں اسی شرعی حد کا اعلان کیا گیا ہے۔ احادیث میں کوڑوں کی سزا کے علاوہ زانی کو ایک سال کے لئے شہر بدر کرنا بھی ثابت ہے جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے اور اکثر علما اس کے قائل ہیں۔ اگر زانی مرد یا عورت شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا رجم یعنی سنگساری سے مار دینا ہے یہ حکم صحیح اور متواتر حدیث سے ثابت ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پھر خلفا کے دور میں سنگساری ہوتی رہی اور حضرت عمر (رض) نے ایک مجمع میں خطبہ دیتے ہوئے بڑے شدومد کے ساتھ اس کا اعلان کیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ رجم کی آیت قرآن میں تھی مگر بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی اور حم برابر باقی رہا۔ پھر صحابہ (رض) اور تابعین (رض) کے درمیان بھی یہ مسئلہ متفق علیہ رہا اور کسی نے انکار نہیں کیا ایک زمانہ میں صرف خوارج نے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ رجم قرآن میں نہیں ہے لیکن جب ” رجم“ کی سزا سنت سے ثابت ہے جو اسلامی قانون کا مستقل ماخذ ہے تو اس سے انکار محض ضلالت ہے۔ بعض ائمہ نے شادی شدہ زانی کو ایک ساتھ دو سزائوں۔ کوڑوں اور رجم۔ کا بھی فتویٰ دیا ہے اور رجم کے بارے میں ائمہ (رح) کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔ (ابن کثیر) 10۔ کیونکہ بدکاروں پر رحم کرنا سارے اسلامی معاشرہ کے ساتھ بے رحمی ہے اور حدود الٰہی میں نرمی ہی سے پہلی امتوں پر تباہی آئی ہے۔ قانون کا احترام اور نفاذ باقی نہ رہے تو قوم اندرونی خلفشار اور جرائم میں مبتلا ہوجاتی ہے اور اقامت حدود سے برکت نازل ہوتی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک حد کا قائم کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ (ابن کثیر) 11۔ تاکہ عام مسلمانوں کو عبرت حاصل ہو۔ (ابن کثیر)