سورة البقرة - آیت 273

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ صدقات ایسے محتاجوں کے لیے جو اللہ کی راہ میں ایسے [٣٨٩] گھر گئے ہیں کہ (وہ اپنی معاش کے لیے) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے۔ ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے ناواقف لوگ انہیں خوشحال سمجھتے ہیں۔ آپ ان کے چہروں سے ان کی کیفیت پہچان سکتے ہیں مگر وہ لوگوں سے لپٹ [٣٩٠] کر سوال نہیں کرتے (ان پر) جو مال بھی تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ یقیناً اسے جاننے والا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ ان سے مراد اصحاب صفہ ہیں۔ (شوکانی) مگر آیت اپنے عموم کے اعبتار سے ان سب فقرا کو شامل ہے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں اور آیت کا منشا یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کے اولین یہ لوگ ہیں یعنی مجاہدین اور علم دین کے طالب علم۔ (ابن کثیر۔ وحیدی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ فی زمانہ ماننا جو لوگ علم دین کی نشر واشاعت کے لیے وقف ہوچکے ہیں اگر ان کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو تو ان کی مدد کی جائے۔ (موضح بتصرف) الحافا۔ یعنی وہ لپٹ کر سوال نہیں کرتے جیسا کہ بھکاریوں کی عادت ہے اور یہ عادت بہت بری ہے۔ (رازی۔ وحیدی) یہ جملہ دراصل تعفف (سوال نہ کرنا) کی تفسیر ہی ہے۔ علمائے تفسیر نے اس کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ وہ بالکل سوا ہی نہیں کرتے (روح) ایک حدیث میں ہے مسکین وہ نہیں ہے جو لقمہ اور دو لقموں کے لیے دربدر پھرتا رہتا ہے بلکہ اصل مسکین وہ ہے جو لوگوں سے لپٹ کو سوال نہیں کرتا۔ نیز احادیث میں نے حاجت سوال کی بڑی مذمت آئی ہے چنانچہ ایک حدیث کے ضمن میں ہے جس کے پاس دوپہر یارات کا کھانا ہے پھر وہ لوگوں سے سوال کرتا ہے تو وہ دوزخ کے انتارے سمیٹتا ہے۔ ( ابو داؤد)