أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ
یا (پھر ان منافقوں کی مثال یوں سمجھو) جیسے آسمان سے زور دار بارش ہو رہی ہو جس میں تاریکیاں بھی ہوں، بجلی کی گرج بھی ہو اور چمک بھی۔ یہ لوگ بجلی کے کڑکے سن کر موت کے ڈر کے مارے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں جبکہ اللہ ان کافروں کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے
ف 5 یہ مثال اللہ تعالیٰ نے منافقین کی دوسرے گروہ کی بیان فرمائی ہے یعنی وہ لوگ جو بظاہر ہر مسلمان تو ہوگئے تھے، مگر صعف ایمان کی وجہ سے ہمیشہ شک وتذبذب میں مبتلا رہتے تھے۔ راحت وآرام کی صورت میں مطمئن نظر آئے تے اور تکا لیف کا سامنا ہوتا تو شک میں پڑجاتے۔ اگلی آیت میں ان کے اسی تذبذب کو بیان فرمایا ہے کہ جب کبھی ان پر رشنی پڑتی ہے تو حل دیتے ہیں اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں : دین اسلام میں آخرت اسی سے آبادی ہے۔ اور اول کڑک ہے اور بجلی ہے منا فق لوگ اول سختی سے ڈرجاتے ہیں اور ان کو آفت سامنے نظر آتی ہے اور جیسے بادل کی چمک میں کبھی اجا لا ہوتا ہے اور کبھی اندھیرا سی طرح منا فق کے دل میں کبھی اقرار ہے کبھی انکار۔ ( مو ضح)