سورة الحج - آیت 37

لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اللہ کو قربانی کے جانوروں کا نہ تو گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون، بلکہ اسے [٦١] تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اسی طرح ہم نے انھیں تمہارے تابع کردیا ہے تاکہ اللہ نے جو تمہیں راہ دکھلائی ہے اس (کا شکر کے طور پر) اس کی بڑائی بیان کرو [٦٢]۔ اور (اے نبی)! آپ نیکو کار لوگوں کو بشارت [٦٣] دے دیجئے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف9۔ یعنی قربانی میں اصل چیز جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ تمہارے دلوں کا خلوص اور تقویٰ ہے۔ اگر خلوص نیت سے قربانی کرو گے تو تمہارا نذرانہ خدا کے حضور قبولیت حاصل کرلے گا ورنہ خون اور گوشت کی خدا کو کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اسی بات کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے(‌إنَّ ‌الله ‌لا ‌ينْظُرُ ‌إِلى ‌أجْسَامِكُمْ، ‌ولا ‌إِلى ‌صُوَرِكمْ، وَلَكن ينْظُرُ إلى قُلُوبِكمْ)۔ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں کی طرف نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم عن ابی ہریرۃ) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکین قربانی کر کے اس کا خون کعبہ پر چھڑکتے تھے۔ مسلمانوں نے بھی ایسا کرنا چاہا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی) ف 10۔ یہاں تکبیر یعنی ” اللہ اکبر“ کہہ کر اللہ کی بزرگی بیان کرنے کا ذکر فرمایا، اور اس سے پہلے قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت ” ‌بِسْمِ ‌اللَّهِ ‌وَاللَّهُ أَكْبَرُ “ کہنامطلوب الٰہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) دونوں کو جمع کرتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قربانی کے دو جانور (دنبے) اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے وقت پہلے دعا پڑھی اور پھر ‌بِسْمِ ‌اللَّهِ ‌وَاللَّهُ أَكْبَرُ “ پڑھ کر ان کو ذبح کیا۔ (قرطبی۔ ابن کثیر)