سورة البقرة - آیت 257

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے وہ انہیں (کفر و شرک کے) اندھیروں سے نکال کر (اسلام کی) روشنی کی طرف لے آتا ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کیا ہے ان کے دوست طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں [٣٦٧] کی طرف لے جاتے ہیں ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 طاغوت (برزن فعلوت) کا لفظ طغیان سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں اس سے مرا شیطان بھی ہوسکتا ہے ہے اور ہر معبود باطل بھی حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں طاغوت شیطان ہے۔ (ابن کثیر) نیز ہر وہ شخص جو راس الضلال بن کرلوگوں سے اپنی بندگی اور اطاعت کر اتا ہے اسے طاغوت کھا جاتا ہے۔ (ترجمان) ف 4 قرآن پاک میں جہاں بھی ظلمات اور نور کے الفاظ آئے ہیں ان سے مراد کفر و ایمان ہی ہے ماسوائے آیت سورت الانعام وجعل الظلمات والنور کے کہ یہاں رات اور دن مراد ہیں۔ (کبیر) اس آیت میں نور کا لفظ بصیغہ واحد اوظلمات کا لفظ بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حق ہمشہ ہر جگہ ایک ہی ہے اور کفر وشرک اور جہالت کی قسموں کا شمار نہیں ہے اور وہ سب باطل ہیں۔ (ابن کثیر) آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پہلے کافر ہوتا ہے اور ایمان لانے کے بعد کفرکی تاریکی سے نکل کر ایمان کی روشنی میں داخل ہو تو ہے مگر یہ معنی مراد نہیں ہیں بلکہ جو شخص ابتدا سے ہی مسلمان ہے اس کے حق میں بھی توفیق و رحمت کے اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لے لیا مثلا قرآن میں ہے : فلما امنوا کشفنا عنھم عذاب الخذی (یونس 18) حالانکہ ان پر تاحال عذاب نازل نہیں ہو اتھا اسی طرح فرمایا : وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ( النحل : ٧٠) حالانکہ وہ کبھی پہلے ارذل لعمر میں تھے جس کی طرف وہ وبارہ لوٹائے گئے ہوں۔ حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے سنا کہ اس نے کہا اشھد ان محمد ارسول اللہ تو آپ نے فرمایا خرج من لنار (یہ شخص آگ سے نکل آیا) حالانکہ وہ پہلے آگ میں نہیں تھا۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا ترکت ملتہ قوم لا یومنون باللہ۔ کہ میں نے ان لوگوں کی ملت چھوڑ دی جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے حا لانکہ یوسف (علیہ السلام) کبھی بھی ان کی ملت میں داخل نہیں تھے۔ الغرض قرآن و حدیث میں اس قسم کے مح اور ات بکثرت مذکور ہیں۔ خوب سمجھ لو (کبیر) ف 5 یعنی یہ کافر اور انکے باطل معبود سب جہنم میں ڈالے جائیں گے دیکھئے بقرہ 24۔ الا نبیاء 98۔ (کبیر، ابن کثیر )