سورة البقرة - آیت 256

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

دین (کے معاملہ) میں کوئی زبردستی نہیں۔ ہدایت [٣٦٤] گمراہی کے مقابلہ میں بالکل واضح ہوچکی ہے۔ اب جو شخص طاغوت [٣٦٥] سے کفر کرے اور اللہ ایمان پر لائے تو اس نے ایسے مضبوط [٣٦٦] حلقہ کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2 حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے منقول ہے کہ جاہلیت میں انصار مدینہ کے بعض لڑکے مختلف اسباب کے تحت یہو دی یا عیسائی ہوگئے تھے ان کے والدین مسلمان ہوئے تو انہوں زبردستی ان کو دائرہ اسلام میں لانا چاہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ گو نزول خاص ہے مگر حکم عام ہے۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام میں جہاد زبر دستی منوانے کا نام نہیں ہے۔ (موضح بتصرف) ف 3 طاغوت (بروزن فعلوت) کا لفظ طغیان سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں اس سے مرا شیطان بھی ہوسکتا ہے اور ہر معبود باطل بھی۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں طاغوت شیطان ہے۔ (ابن کثیر) نیز ہر وہ شخص جو راس الضلال بن کرلوگوں سے اپنی بندگی اور اطاعت کر اتا ہے اسے طاغوت کھا جاتا ہے۔ (ترجمان)