سورة الأنبياء - آیت 2

مَا يَأْتِيهِم مِّن ذِكْرٍ مِّن رَّبِّهِم مُّحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جب بھی ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے سن تو لیتے ہیں مگر کھیل میں پڑے [٣] رہتے ہیں (اس میں غور نہیں کرتے)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 ” ذکر“ سے مراد قرآن ہو تو اس کا محدث (نیا) ہونا نزول کے اعتبار سے ہے کیونکہ قرآن حسب مواقع سورت سورت اور آیت آیت کی شکل میں نازل ہوا ہے۔ ورنہ قرآن اللہ کا کلام غیر مخلوق اور قدیم ہے اور بعض علما نے ” ذکر“ سے خود ” رسول“ مراد لیا ہے اور آنحضرت کو قرآن میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ دیکھیے سورۃ قلم آیت 52 اطلاق آیت 10 (قرطبی) ف 5 یعنی توجہ اور دھیان سے سننے کی بجائے الٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ف 6 جیسا کہ ایک مادہ پرست دنیا کو کھیل تماشا سمجھتا ہے اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ آج کل کے علوم و فنون سائنس آرٹ وغیرہ میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو آخرت کی یاد دلانے والی ہو بلکہ یہ سب روشن خیالیاں روز بروز آخرت اور فکر آخرت سے دور لے جا رہی ہیں۔