سورة طه - آیت 121

فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

آخر ان (دونوں) نے اس درخت کا پھل کھالیا جس سے ان کے ستر کے مقامات ایک دوسرے کے آگے کھل گئے تو وہ جنت کے پتوں سے [٨٧] انھیں ڈھانکنے لگ گئے ۔ اور آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا وہ بھٹک گئے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 3 یعنی اپنے رب کا حکم بجا لانے میں غفلت اور کوتاہی برتی اور اپنی شان کے مطابق عزت و استقامت کی راہ پر قائم نہ رہے۔ آدم سے یہ کوتاہی ان کے نبی بننے سے پہلے ہوئی ہے مگر آدم کو جو بلند مقام حاصل تھا اس کے لحاظ سے ان کی معمولی لغزش بھی بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ اس لئے سرزنش کی گئی، ورنہ اگر معمولی درجے کا انسان یہ کوتاہی برتتا تو اس کے لئے یہ سخت لفظ استعمال نہ کیا جاتا مشہور ہے۔‌حسنات ‌الأبرار سيئات المقربين کہ ابرار کی نیکیاں مقربین کے حق میں گناہ شمار ہوتی ہیں۔ (کبیر)