وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور ان کی بیویاں موجود ہوں تو وہ اپنی بیویوں (بیواؤں) کے حق میں وصیت کر جائیں کہ سال بھر انہیں نان و نفقہ دیا جائے اور گھر سے نکالا [٣٣٧] نہ جائے۔ لیکن اگر ان عورتوں کے ذہن میں اپنے لیے کوئی اچھی تجویز ہو اور وہ از خود گھر سے چلی جائیں تو تم پر کوئی گرفت نہیں۔ اور اللہ ہی صاحب اقتدار و اختیار اور حکمت والا ہے
ف 2İ وَصِيَّةٗ لِّأَزۡوَٰجِهِمĬ۔ یعنی جو لوگ وفات پاجائیں ان کی بیویوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ وصیت کی ہے یا مرنے سے قبل ان کو چاہیے کہ وصیت کر جائیں۔ ’’ای اوصی اللہ وصیتہ اوفلیو صو اوصیتہ۔( شوکانی) ابتدا میں یہ حکم تھا کہ جس عورت کا شوہر فوت ہوجائے۔ اسے ایک سال کے لیے شوہر والے مکان میں سکونت پذیر رہنے کے لیے حقوق حاصل ہیں اور اس مدت کے پورے مصارف متوفیٰ کے اولیاء کے ذمہ ہوں گے۔ ہاں اگر بیوی چاہے تو سال پورا ہونے سے پہلے رخصت ہو سکتی ہے اس صورت میں اولیاء قصوروار نہ ہوں گے اکثر علما کے نزدیک یہ دونوں حکم (نفقہ سنۃ وسکنی) ہی منسوخ ہیں سورت نساء آیت میراث 12 سے ایک سال کے مصارف اورحق سکونت کا وجوب منسوخ ہوگیا اوپر کی آیت 234 میں متوفی عنہا کی عدت چارماہ دس دن او رسورت طلاق آیت 4 میں حاملہ کی عدت وضع حمل قرار پانے کے بعد ایک سال کی عدت بھی منسوخ ہوگئی۔ اب متوفی عنہا کے لیے لازم ہے کہ آیت 234 کے مطابق شوہر والے مکان میں چا رماہ دس دن عدت گزارے یا اگر حاملہ ہے تو وضع حمل تک اسی مکان میں رہے جیسا کہ آنحضرت (ﷺ) نے حضرت ابو سعید خدری کی بہن فریعة بنت مالک کو اس کے شوہر کی وفات کے بعد حکم دیا تھا کہ(امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ)۔ اور بعد میں حضرت عثمان (رض) نے ایک مقدمہ میں اس حدیث کے مطابق فیصلہ بھی فرمایا۔ (ابن کثیر، شوکانی۔ بحوالہ سنن اربعہ ومؤطامالک)