وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور اگر انہیں ہاتھ لگانے سے پیشتر طلاق دو مگر ان کا حق مہر مقرر ہوچکا ہو تو طے شدہ حق مہر کا نصف ادا کرنا ہوگا الا یہ کہ وہ عورتیں از خود معاف کردیں یا وہ مرد جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے فراخ دلی سے کام لے (اور پورا مہر دے دے) اور اگر تم درگزر کرو (اور پورے کا پورا حق مہر دے دو) تو یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔ اور باہمی معاملات میں فیاضی [٣٣١] کو نہ بھولو۔ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ یقینا اسے دیکھ رہا ہے
ف 6 یہ دسری صورت ہے کہ مہر مقرر کیا جا چکا ہو اور شو ہر نے قبل از مسیس (مجامعت یا خلوت صحیحہ) طلاق دے دی اس صورت میں عورت نصف مہر کی حقدار ہوگی ہاں اگر وہ عورت خود یا اس کے اولیا معاف کردیں تو دوسری بات ہے بعض نےİ بِيَدِهِۦ عُقۡدَةُ ٱلنِّكَاحِ Ĭسے شوہر مراد لیا ہے اور اس کی طرف سے عفویہ ہے کہ وہ اپنی خوشی سے پورا مہر دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور پھر، İوَأَن تَعۡفُوٓاْ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوَىٰۚĬ فرماکر شوہر کو تر غیب دی ہے کہ پورا مہر دے دینا ہی اقرب الی التقوی ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) مسئلہ: اگر اس صورت میں شوہر قبل از مسیس وفات پاجائے توبیوی پورے مہر کی حقدار ہوگی اسے ورثہ بھی ملے گا اوراس پر عدت بھی ہوگی جیسا کہ بروع بنت واشق کی حدیث میں ہے۔(شوکانی) واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی دو قسمیں اور ہیں (1) مہر مقرر ہوچکا تھا اور خاوند نے بعد ازمسیس طلاق دے دی۔ دیکھئے آیت 229۔ (2) عقد کے وقت مہر مقرر نہ تھا مگر بعد ازمسیس طلاق دی اس صورت میں عورت مہر مثل کی حقدار ہوگی یعنی جتنا مہر عموما اس کے خااندان کی عورتوں کا مقرر ہوتا ہے اس کے مطابق اسے مہر دلوایا جائے گا جیسا کہ سورت نسا آیت 24 کے تحت مذکور ہوگا۔ (شوکانی)