سورة البقرة - آیت 231

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آ جائے تو پھر یا تو سیدھی طرح انہیں اپنے پاس رکھو یا پھر بھلے طریقے سے انہیں رخصت کر دو۔ [٣١٣] انہیں دکھ پہنچانے کی خاطر نہ روکے رکھو (یعنی رجوع کرلو) کہ تم ان پر زیادتی کرسکو۔ اور جو شخص یہ کام کرے گا تو وہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق نہ اڑاؤ۔[٣١٤] اور اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا اور جو تم پر کتاب و حکمت نازل کی جس کے ذریعہ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 ایعنی اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق رجعی دو، ان کی عدت پوری ہونے سے پہلے تمہیں رجوع کا حق پہنچتا ہے مگر یہ رجوع محض ان ستانے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے نہ ہو کیونکہ ایسا کر ناظلم وزیادتی اور احکام الہی سے مذاق کرنا ہے ،۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مذاق مذاق میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ای لا تتخذو الخ مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طلاق کا نافذ فرمادیا۔ (ابن کثیر) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ تین چیزوں میں مذاق بھی سنجیدگی قرار پائیگی یعنی نکاح، طلاق۔ اور رجوع، (ابن کثیر بحوالہ جامع ترمذی) ف 4 یہاں الحکمت سے مراد سنت ہے یعنی کتاب وسنت کی جو نعمت تم پر نازل کی ہے اسے مت بھو لو، یہ دونوں وحی الہی میں اور دلیل ہونے میں دونوں برابر ہیں لہذا منکر حدیث کا بھی وہی حکم ہے جو منکر قرآن کا ہے۔) ترجمان) مطلب یہ ہے کہ ان آیات میں بیان کردہ عائلی مسائل کو حدیث پاکی روشنی میں زیر عمل لانا ضروری ہے۔ (م، ع) حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ میری بہن کو اس کے شوہر نے ایک طلاق دیدی اور جوع نہ کیا حتی کی عدت گزر گئی پھر دونوں نے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا۔ جب وہ میرے پاس پیغام لے کر آیا تو میں نے اسے خوب برا بھلا کہا اور قسم کھائی کہ اب تم دونوں کا دوبارہ نکاح ہونے دوں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لہذا میں نے نکاح کی اجازت دے دی اور قسم کا کفارہ ادا کردیا۔ (صحیح بخاری) اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت خود بخود اپنا نکاح نہیں کرسکتی بلکہ ولی کی اجا زت ضروری ہے۔ حدیث میں ہے : لا تروج الموء ہ المرءہ ولا تزوج المرء ہ نفسھا فان الزنیتہ ھی التی تزوج نفسھا۔ یعنی کوئی عورت نہ خود اپنا نکاح کرسکتی ہے اور نہ کسی دوسری عورت کا نکاح کرسکتی ہے جو عورت ولی کے بغیر ازخود اپنا نکاح کرالتی ہے وہ زانیہ ہے۔ (ابن کثیر) اگر عورت خود اپنا نکاح کرسکتی تو عورت کے اولیاء کو قرآن مخاطب نہ کرتا تم ان کو مت روکو۔ (معالم )