وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو وہ تین حیض [٣٠٣] کی مدت اپنے آپ کو روکے رکھیں۔ اور اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں تو انہیں یہ جائز نہیں کہ اللہ نے جو کچھ ان کے رحم میں [٣٠٤] پیدا کیا ہو، اسے چھپائیں اور اگر ان کے خاوند اس مدت میں پھر سے تعلقات استوار کرنے پر آمادہ ہوں تو وہی انہیں زوجیت میں واپس لینے کے زیادہ [٣٠٥] حق دار ہیں۔ نیز عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ [٣٠٦] حاصل ہے۔ اور (یہ احکام دینے والا) اللہ تعالیٰ صاحب اختیار بھی ہے اور حکمت والا بھی
ف 3 مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی خاوند جماع کے بعد اپنی عورت کو طلاق دے اور اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کے لیے عدت تین ماہ ہے اور اگر حاملہ ہو تو وضع حمل۔ (دیکھئے سورت الطلاق آیت 4) اگر جماع سے پہلے ہی طلاق ہوجائے تو اس پر کوئی عدت نہیں ہے۔ (دیکھئے آیت 237) پس اس آیت میں الْمُطَلَّقَاتُسے ان عورتوں کی عدت کا بیان کرنا مقصو ہے جن سے خاوند صحبت کرچکے ہوں اور وہ حاملہ نہ ہوں اور ان کو حیض بھی آتا ہو تو ان کی عدت تین طہر یا تین حیض ہے۔( ابن کثیر۔ شوکانی) قُرُوٓءٖ کا لفظ جمع ہے اور اس کا واحد قرء ہے اور یہ طہر اور حیض دونوں پر بو لا جاتا ہے گو از روئے دلائل اول راجح ہیں مگر فتوی دونوں پر صحیح ہے۔ (سلسلئہ بیان کے لیے دیکھئے سوررت الطلاق آیت 1) حضرت اسماء بنت یزیدانصاریہ کا بیان ہے کے پہلے مطلقہ عورت کے لیے کوئ عدت مقرر نہ تھی جب مجھے طلاق ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی حمل یاحیض کے بارے میں عورت غلط بیانی سے کام نہ لے اور یاد رکھو باہمی حقوق ادا کرنے میں میاں بیوی دونوں برابر ہیں مگر مردکو عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ (دیکھئے سورت النساء آیت 34) اس لیے عدت کے اندر اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو عورت کو لا زما ماننا ہوگا۔ (ابن کثیر) ف5 حضرت عائشہ (رض) اور دیگر صحابہ کی روایات کے بموجب ابتدائے ہجرت میں جا ہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کر اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہو تو تھا اس صورت حال کو روکنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے اس کے بعد امساک بمعور یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا تسر یح با حسان یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مر فوعا ثابت ہے اور ابن جریر نے اس کو ترجیح دی ہے۔ بعض نے اوا تسریح باحسان سے یہ مراد لیے ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتی کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت خود بخود اس سے الگ ہوجائے (ابن جریر۔ ابن کثیر )