وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
نیز وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہیے کہ وہ ایک گندگی [٢٩٥] کی حالت ہے لہٰذا حیض کے دوران عورتوں [٢٩٦] سے الگ رہو۔ اور جب تک وہ پاک نہ ہو لیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جا سکتے ہو جدھر سے اللہ نے تمہیں حکم [٢٩٧] دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے
ف 3 حیض کہتے ہیں خون کو جو عورتوں کی عادت ہے اور عادت کے خلاف جو خون آوے وہ استحاضہ (بیماری) ہے حیض کے دونوں میں عورت سے مجامعت کرنا اور عورت کے لیے نماز روزہ سب حرام ہیں۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ یہود حالت حیض میں عورت کے ساتھ کھانے پینے اور گھر میں اس کے ساتھ اختلاط کو جائز نہیں سمجھتے تھے، صحابہ نے اس بارے میں آنحضرت (ﷺ) سے دریافت کیا تو یہ آیت اتری۔ اس پر آپ (ﷺ) نے فرمایا : حالت حیض میں جماع کے علاوہ ہر طرح سے عورت کے ساتھ اختلاط جائز ہے اور اس حالت میں الگ رہنے کا مطلب صرف ترک مجامعت ہے۔ ( ابن کثیر بحوالہ مسلم وغیرہ) ف 4 یعنی جب تک پاک ہو کر غسل نہ کرلیں اس پر جمیع علماء کا اتفاق ہے۔ صرف امام ابو حنیفہ اس مسئلہ میں دوسروں سے منفرد ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر حیض اپنی پوری مدت میں یعنی دس دن پر موقوف ہو تو غسل سے پہلے ہی مجامعت درست ہے مگر یہ قول تَطَهَّرۡنَ کے خلاف ہے جس كے معنی اچھی طرح پاک ہوجانا کے ہیں۔ (ابن کثیر۔، ابن العربی) ف 5 یعنی عورت سے اس کی آگے کی جانب شرم گاہ میں مجا معت کرو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے غیر فطری مجامعت حرام ہے۔ (ابن کثیر )