يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
وہ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہیے کہ ان دونوں کاموں میں بڑا گناہ [٢٩٠] ہے۔ اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ مگر ان کا گناہ ان کے نفع کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔ نیز آپ سے پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا کچھ خرچ کریں؟ ان سے کہیے کہ جو کچھ بھی ضرورت [٢٩١] سے زائد ہو (وہ سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دو) اسی انداز سے اللہ تعالیٰ اپنے احکام تمہارے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم دنیا اور آخرت [٢٩٢] دونوں کے بارے میں غور و فکر کرو
ف 4 اس آیت میں گو شراب اور جوئے کی حرمت کی تصریح نہیں ہے مگر قطعی طور پر ان کی تحریم کے لیے تمہید ضرور ہے۔ آخر کار سورت مائدہ( آیت 9۔19) میں ان کو قطعی اور صاف طور پر "حرام کردیا گیا۔ (ابن کثیر) حدیث میں ہے : (كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ) (صحیحین) یعنی ہر نشہ آور چیز خمر ہے، لہذا ہر نشہ آور شراب اس کے تحت حرام ہے خواہ وہ انگور سے کشید کی گئی ہو یا کسی اور چیز سے۔ اور احادیث میں شراب نوشی کی سخت مذمت آئی ہے اور پینے پلانے والوں کے علاوہ خرید وفروخت اور بنانے بنوانے اور حمالہ یعنی مزدوری کرنے والوں پر بھی لعنت کی گئی ہے۔( ابو داؤد) اور ایسے دسترخوان پر بیٹھنے سے بھی منع فرمایا جس پر شراب موجود ہو۔ (ترغیب) اور ٱلۡمَيۡسِرِ قمار (جوئے) کو کہتے ہیں اور آجکل پانسے لاٹری اور سٹے وغیرہ کے نام سے جو کاروبار ہو رہے ہیں سب قمار بازی کے شعبے ہیں اور علمائے سلف نے جوئے اور شطرنج کو بھی قمار میں شامل کیا ہے۔ (ترجمان وحیدی) سلسلئہ بیان دیکھئے سورت مائدہ آیت 90) ف 5 عَفۡوَ سے مراد وہ مال ہے جو اہل عیال اور لازمی ضروریات پر خرچ کرنے کے بعد بچارہے اور جس کے خرچ کرنے کے بعد انسان خود اتنا محتاج نہ ہوجائے کہ دوسروں سے سوال کرنے لگے۔ حدیث میں ہے بہتر صدقہ وہ ہے جو خوشحالی کے ساتھ ہو اور تم پہلے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو (بخاری) یہ حکم زکوة کے علاوہ نفلی صدقہ کا ہے اور حدیث میں ہے کہ مال میں زکوةکے علاوہ بھی حق ہے (فتح القدیر) ف 6 یعنی دنیا اور آخرت دونوں کی فکر رکھو مگر دنیا چند روزہ ہے اوآخرت ہمیشہ رہنے والی ہے لہذا بنیادی ضروریات کے بعد جو مال بچ رہے اس کا آخرت ہی کے لیے جمع کرنا بہتر ہے۔ کذافی حدیث۔ (ابن کثیر )