سورة الكهف - آیت 86

حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

حتیٰ کہ وہ سورج غروب ہونے کی حد تک پہنچ گیا اسے یوں معلوم ہوا جیسے سورج سیاہ کیچڑ والے چشمہ میں ڈوب رہا ہے وہاں اس نے ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا : ''اے ذوالقرنین! تجھے اختیار ہے خواہ ان کو تو سزا دے [٧٢۔ الف] یا ان سے نیک رویہ اختیار کرے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4 یعنی وہ مغرب کی جانب پیہم فتوحات کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ خشکی کے اس آخری سرے پر پہنچ گیا جہاں آبادی ختم ہو کر سمندر (بحر محیط) شروع ہوتا ہے ف 5 یعنی وہاں غروب آفتاب کے وقت انہوں نے دیکھا کہ سورج سمندر میں یوں ڈوبتا ہے جیسے وہ کسی کالے پانی کے کنڈ یا گرم چشمے میں ڈوب رہا ہو۔ ف 6 یعنی ان دونوں کو قدرت دی اور یہ قدرت ہر بادشاہ اور حاکم کو ملتی ہے کہ وہ خلق اللہ کو ستاوے یا اپنی خوبی کا ذکر جاری رکھے۔ (کذا فی الموضح) لفظ قُلۡنَا (ہم نے کہا) کی بنا پر بعض مفسرین نے ذوالقرنین کو نبی قرار دیا ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ بات براہ راست بذریعہ وحی خطاب کر کے فرمائی ہو۔ بلکہ یہ ارشاد زبان حال یا اس وقت کے نبی كے واسطہ سے بھی ہوسکتا ہے جیسے فرمایاİ قِيلَ ‌يَٰٓأَرۡضُ ٱبۡلَعِي مَآءَكِ Ĭ (ہود) یا جیسے فرمایاİ فَقُلۡنَا ٱضۡرِبُوهُ ‌بِبَعۡضِهَاĬ (بقرہ) اس لئے اکثر علمائے سلف ذوالقرنین کو نبی نہیں بلکہ خدا پرست اور عادل فرمانروا مانتے ہیں۔ معالم التنزیل)