وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا
[٤٦] اور (وہ واقعہ یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے اسے سجدہ کیا۔ وہ جنوں سے [٤٧] تھا اس لئے اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کی۔ کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولاد کو اپنا دوست [٤٨] بناتے ہو، حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے؟ یہ کیسا برا بدل ہے [٤٩] جسے ظالم لوگ اختیار کر رہے ہیں۔
ف 9 اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کے ذکر کرنے سے مقصود کفار مکہ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ تم جس غرور تکبر کی راہ پر چل رہے ہو اور فقراء و مسلمین کو حقیر سمجھتے ہو۔ یہ وہی راہ ہے جس پر تم سے پہلے شیطا ن نے قدم رکھا تھا پھر دیکھ لو کہ اس کا انجام کیا ہوا۔ (کبیر) ف 1 یعنی وہ فرشتوں میں سے نہیں تھا، جنوں میں سے تھا، اسی لئے اس نے اپنے مالک کی نافرمانی کی فَفَسَقَمیں فاء تعلیلیہ ہے۔ (کبیر)اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرتا۔ کیونکہ فرشتے تو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ (تحریم :6)