وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ''روح میرے پروردگار کا حکم [١٠٦] ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے''
ف 7 یعنی اللہ کے حکم سے ایک چیز بدن میں آ پڑی وہ جی اٹھا جب نکل گئی وہ مر گیا۔ اس کے علاوہ روح کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ ف 8 یعنی اللہ تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں تمہیں دیا ہوا علم کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا ایسے امور کے متعلق سوال کرنا ہی بے فائدہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں چند یہودیوں کے روح کے متعلق سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی (بخاری مسلم) مگر نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ یہود کے اشارے پر قریش نے آنحضرتﷺ سے یہ سوال کیا تھا۔ اس بنا پر اس آیت کے مکی اور مدنی ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آیت تو مکہ میں ہی نازل ہوچکی ہو مگر جب مدینہ میں یہود نے دوبارہ سوال کیا ہو تو آنحضرت نے اس آیت کو ان کے جواب میں بھی تلاوت فرما دیا ہو۔ (ابن کثیر)