مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو گمراہ ہوا تو اس کا بار بھی اسی پر ہے اور کوئی گناہ کا بوجھ اٹھانے والا [١٤] دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول [١٥] نہ بھیج لیں۔
ف 1 مطلب یہ ہے کہ جو شخص اچھے عمل کرتا ہے وہ کسی پر احسان نہیں کرتا بلکہ اس کا فائدہ اس کو پہنچتا ہے اور اگر برے عمل کرتا ہے تو ان کا بوجھ بھی اسی پر ہوگا۔ ف 2 یعنی دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا بلکہ وہ اسے خود ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ سورۃ نحل اور عنکبوت میں جو یہ آیا ہے کہ اڈہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے بھی جن کو بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے ہیں۔“ تو یہ دراصل دوسروں کا بوجھ نہیں ہے بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے خود ان کا اپنا بوجھ ہے۔ (نیز دیکھیے نحل :25 عنکبوت :13) ف 3 جو ان تک اللہ کے احکام پہنچا دے اور تمام حجت ہوجائے۔ جمہور علمائے تفسیر نے اسے عذاب دنیوی پو محمول کیا اور مراد عذاب اخروی بھی ہوسکتا ہے۔ (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کی چھوٹی اولاد معذب نہ ہوگی بلکہ حدیث ” کل مولود یولد علی الفطرۃ“ (کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنت میں جائے گی بعض دوسری روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور حدیث ھم من اباء ھم“ کہ وہ اپنے آباء کے تابع ہوں گے پہلی حدیث یعنی کل مولود کے معارض نہیں ہے۔ کیونکہ یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب آپ کو ان کے جنتی ہونے کا علم نہ تھا۔ (ماخوذ ابن کثیرہ رازی)