سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
پاک ہے وہ ذات جس نے ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام [١] سے لے کر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ جس کے ماحول کو ہم نے برکت [٢] دے رکھی ہے (اور اس سے غرض یہ تھی) کہ ہم اپنے بندے کو اپنی بعض نشانیاں [٣] دکھائیں۔ بلاشبہ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
ف 2 ” عبد“ (بندہ) کا لفظ اس محبت اور تعلق کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے آخری پیغمبر محمد ﷺ سے ہے اہل قلم کہتے ہیں کہ اگر پیار و محبت کے اظہار کے لئے اس سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا لفظ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس مقام پر اسی کو استعمال فرماتا۔ (روح) ف 3 اسی اسرار“ کو معراج بھی کہا جاتا ہے مگر دراصل اسراء اور معراج دو سفر ہیں جو ایک ہی رات میں ہوئے۔ مکہ سے بیت المقدس تک سفر کا نام ” اسراء“ ہے جس کا تذکرہ یہاں فرمایا ہے۔ پھر بیت المقدس سے آسمانوں کے لئے جانے کو معراج کہا جاتا ہے جس کی تفصیلات کتب حدیث اور سیر میں مذکور ہیں …“ مسجد حرام“ سے مراد مکہ یا پورا حرم ہے کیونکہ جس رات معراج ہوئی آنحضرت ام ہانی“ کے گھر میں سوئے ہوئے تھے وہاں سے آپ کو حطیم کعبہ میں لایا گیا اور پھر حطیم سے براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے اور بیت المقدس سے بذریعہ معراج کے اوپر ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہی تک پہنچے راستہ میں آسمانوں پر متعدد جلیل القدر انبیاء سے ملاقاتیں ہوئیں اور آپ نے جنت دوزخ کا مشاہدہ بھی کیا۔ بالاخر سدرۃ المنتہی پر پہنچ کر اپنے رب سے ہم کلام بھی ہوئے اور یہیں آپ کو پنجگانہ نماز کا حکم ملا۔ پھر پلٹ کر بیت المقدس آئے جہاں آپ نے امام بن کر تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نماز ادا کی حافظ ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے لیکن قاضی عیاض وغیرہ کا خیال ہے کہ انبیاء کی امامت آپ نے واپسی پر نہیں بلکہ معراج کو جاتے ہوئے کورائی ہے۔ بہرحال اس کے بعد مسجد حرام واپس تشویف لائے۔ سفر کا یہ واقعہ بہت سی احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور تقریباً تیس صحابہ سے مروی ہے۔ گو بعض جزئیات میں اختلاف ہے علماء سلف و خلف کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ واقعہ بیداری میں روح اور جسم سمیت پیش آیا اور قرآن میں لفظ عبدہ سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے پھر اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو کافر قریش اس کی تکذیب نہ کرتے اور نہ قرآن ہی سبحان الذی کی تمہید کے ساتھ اسے بیان کرتا کیونکہ ان تمہیدی الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم اور خرق عادت واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ بعض علماء نے آیت کریمہ :” وما جعلنا الروبا التی اریتاک آلایۃ میں لفظ رئویا سے استدلال کیا ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے۔ مگر محققین علمائے لغت نے تصریح کی ہے کہ لفظ رویا بیداری میں مشاہدہ عینی پر بھی بولا جاتا ہے اور یہاں پر یہی معنی مراد ہیں۔ کما صرح بہ ابن عباس (بخاری) پس اس آیت سے ان کا یہ استدلا لصحیح نہیں ہے، تمام صحابہ روایتہ اس پر متفق ہیں کہ آنحضرت کو معراج بحالت بیداری ہوئی اور جسم کے ساتھ ہوئی اور یہی اہل حدیث کا متفقہ فیصلہ ہے۔ صرف حضرت عائشہ اور معاویہ سے یہ مروی ہے کہ معراج خواب میں ہوئی مگر ایک تو یہ روایت سند منقطع ہے اور پھر ان کی اپنی رائے اور آیت کریمہ وما جعلنا الرویا سے استدلال ہے جو صحابہ کے متفقہ فیصلہ کے سامنے ناقابل التفات سمجھا گیا ہے۔ (از شوکانی ابن کثیر) اکثر روایات کے بیان کے مطابق یہ قصہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔ ابن حزم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ملا امین عمری نے اس کو قطعی قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں تین سال قبل بھی مذکور ہے۔ صرف حضرت انس سے شریک بن ابی نمرہ کی ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ قبل از نبوت کا ہے مگر شریک کی یہ روایت شاذ اور منکر سمجھی گئی ہے۔ حافظ عبدالحق الجمع بین الصحیحین بھی لکھتے ہیں : قد زادفیہ زیادۃ مجھولۃ واتی بالفاظ غیر معروفۃ اور پھر شریک علماء حدیث کے نزدیک ” حافظ“ بھی نہیں ہے۔ بہرحال صحیح یہی ہے کہ ہجرت سے کچھ عرصہ قبل کا واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت خدیجہ اس وقت زندہ تھیں اور انہوں نے پنجگانہ نماز ادا کی ہے اور ان کی وفات ہجرت سے تین سال پیشتر ہوئی ہے۔ واللہ اعلم (روح) ف 4 ظاہری اور مادی برکات بھی ہیں کہ وہاں چشموں، نہروں اور ہر قسم کے پھلوں کی بہتات ہے اور باطنی اور روحانی اعتبار سے بھی وہ خطہ یا برکت ہے کہ بہت سے انبیاء و رسل کا مسکن اور مفدن ہے اور دنیا میں دوسری مسجد ہے اور یہ ان تین مساجد میں شامل ہے جن کی زیارت کے لئے سفر کو مشروع قرار دیا گیا ہے۔ اور دنیا میں چار مواضع وہ ہیں جن میں دجال داخل نہیں ہو سکے گا۔ یعنی حرمین، اقصی اور طور شرفاً و برکتہ