وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے بڑی محنت [٩٥] سے سوت کاتا پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ تم اپنی قسموں کو باہمی معاملات میں مکرو فریب کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک جماعت دوسری سے ناجائز فائدہ حاصل کرے۔ اللہ تو ان (قسموں اور معاہدوں) کے ذریعہ [٩٦] تمہاری آزمائش کرتا ہے۔ اور قیامت کے دن تم پر یقیناً اس بات کی وضاحت کر دے گا جس سے تم اختلاف کیا کرتے تھے
ف 9 یہ ایک تشبیہ ہے جو قسموں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑنے والوں کے لئے بیان کی گی ہے۔ ضرویر نہیں کہ ایسی عورت کہیں پائی بھی گئی ہو اگر یہ ان جرتیر اور ابن ابی حاتم کی بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک پاگل عورت تھی و نبوت کا تتی اور پھر سے خوب بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس آیت میں قسمیں توڑنے والوں کو اس عورت سے تشبیہ دی گی ہے واللہ اعلم فیضا القربی) ف 10 یعنی کسی گروہ سے اس لئے بدعہدی نہ کرو جب تم نے عہد ……موجود تھے اور یہ سمجھو طاقت ور تھا اور اب تم طاقتور ہوگئے ہو اور یہ کمزور ہوگیا ہے یا اب تمہیں اس سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا حلیف مل گیا جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے۔ شوکانی (قرطبی) اور جیسا کہ اس آنے میں اہل مغرب کا عام دستور ہے۔ ف 11 کہ تم اپنے عہد پر قائم رہتے ہو یا دسروں گروہ کو طاقتور یا کمزور پا کر اپنے عہد کا خیال چھوڑ دیتے ہو۔ (قرطبی)