يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
لوگ آپ سے نئے چاندوں [٢٤٨] (اشکال قمر) کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات اور حج کی تعیین کے لیے ہیں۔ نیز یہ کوئی نیکی کی بات نہیں کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی [٢٤٩] طرف سے آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے۔ لہٰذا تم گھروں میں ان کے دروازوں سے ہی آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اس طرح شاید تم فلاح پا سکو
ف 4 اھلتہ یہ جمع ہلال کی ہے اور چاند کے پورا ہونے سے پہلے اسے ہلال کہا جاتا ہے۔ لوگوں نے اس کی کمی بیشی کا سبب دریافت کیا اللہ تعالیٰ نے مواقیت للناس فرما حکیمانہ انداز میں اس کے فوائد کی طرف اشارہ فرمادیا ہے چاند کے بڑھنے گھٹنے کے فائدے یہ ہیں کہ عبادات اور معاملات جیسے طلاق کی عدت حج، عید الفطر وغیرہ اس کے ساتھ معلق ہیں ان کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ (شوکانی) ف 5 اس کا تعلق بھی چونکہ حج سے ہے اس لیے یہاں بیان فرمادیا جاہلیت میں توہم پرستی کا غلبہ تھا ان کے ہاں یہ رسم تھی کہ وہ حج کے لیے احرام باندھ لیتے اور پھر گھر میں آنے کی ضرورت پڑتی تو دروازے کی بجائے پیچھے سے چھت پر چڑھ کر آتے۔ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ احرام باندھ لینے والے کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے اور آسمان کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔ اس آیت میں ان کی غلط رسم کی تردید فرمائی ہے۔ (شوکانی )