أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
یا انھیں اس طرح پکڑے کہ وہ کمزور [٤٦] ہو کر تباہ ہوجائیں بلاشبہ آپ کا پروردگار ترس کھانے والا، رحم کرنے والا ہے (جو انھیں مہلت دیئے جاتا ہے)
ف 2 یعنی جب غفلت کی حالت نہ ہو بلکہ انہیں عذاب کے آنے کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے چونکتے ہوں مثلاً پہلے سخت آندھی یا زلزلہ آئے جس سے خوف زدہ ہوجائیں اور پھر اس حالت میں ان پر عذاب بھیج دے۔ بعض نے ” تخوف“ کے معنی ” تنقص“ آہستہ آہستہ کم کرنے) کے کئے ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انہیں اچانک نہ پکڑے بلکہ ان کی جانوں، مالوں اور پیداوار کو آہستہ آہستہ کم کرتا رہے یہاں تک کہ وہ بالکل تباہ ہوجائیں۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس سے منقول ہے اور حضرت عمر نے اپنے ایک خطبہ میں اس معنی کو پسند فرمایا تھا۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر حال میں ان پر عذاب بھیج سکتا ہے۔ (روح) ف 3 کہ تم گناہ کرتے رہتے ہو مگر بایں ہمہ وہ تم کو رزق اور تندرستی بخشتا ہے اور اس کی طرف سے تمہاری فوراً گرفت نہیں ہوتی۔ (کذافی ابن کثیر)