سورة البقرة - آیت 178

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اے ایمان والو! قتل کے مقدمات میں تم پرقصاص [٢٢٢] فرض کیا گیا ہے اگر قاتل آزاد ہے تو اس کے بدلے آزاد ہی قتل ہوگا۔ غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی قتل کی جائے گی۔ پھر اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں) سے کچھ معاف [٢٢٣] کردیا جائے تو معروف طریقے سے (خون بہا) کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل یہ رقم بہتر طریقے سے (مقتول کے وارثوں کو) ادا کردے۔ یہ (دیت کی ادائیگی) تمہارے رب کی طرف سے رخصت اور اس کی رحمت ہے اس کے بعد جو شخص زیادتی کرے [٢٢۴] اسے درد ناک عذاب ہوگا۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 3: زمانہ جاہلیت میں کوئی شخص کسی دوسرے قبیلے کہ آدمی کو قتل کر ڈالتا تو اس قبیلہ کے لوگ صرف قاتل کو قتل کرنے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اس کے بدلے متعدد آدمیوں کو قتل کئے بغیر صبر نہ کرتے سعید بن جبر کہتے ہیں اسلام سے پہلے دو عرب قبیلوں کی آپس میں جنگ ہوئی تھی ابھی انہوں نے آپس میں بدلہ نہ لیا تھا کہ مسلمان ہوگئے۔ ایک قبیلہ والوں نے قسم کھائی کہ جب تک ہم اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد آدمی کو اور عورت کے بدلے مرد کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہ بیٹھیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ( ابن کثیر۔ شوکانی )اور بدلہ لینے میں تعدی سے منع فرمادیا ہے۔ ٱلۡقَتۡلَىاس کا واحد قتیل ہے جو معنی مقتول کے ہے۔ (م۔ ع) ف 4 : اس آیت سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلام کے بدلے آزاد اور عورت کے بدلے مرد قتل نہیں ہوسکتا۔ پہلے مسئلہ میں تو اختلاف ہے مگر دوسرے مسئلہ میں اس پر اتفاق ہے کہ عورت کا قاتل اگر مرد ہے تو عورت کے بدلے مرد قتل کیا جائے گا۔ حدیث میں ہے۔ (الْمُسْلِمُونَ ‌تَتَكَافَأُ ‌دِمَاؤُهُمْ )کہ مرد عورت وضیع شریف الغرض سب مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ (قرطبی) اور﴿ ٱلۡحُرُّ بِٱلۡحُرِّ﴾سے بظاہر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل کیا جاسکتا ہے یہ مسئلہ گومختلف فیہ ہے مگر صحیح یہ ہے کہ کافر کے بدلے مسلمان قتل نہیں ہوسکتا جیسا کہ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ (سلسلۃ بیان کے لیے دیکھئے المائدۃ آیت 45) ف 1: آیت میں فَمَنمیں من سے مراد قاتل ہے اور أَخِيهِ سے مقتول ( جو مسلمان ہونے کے اعتبار سے اس کا بھائی ہے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخفیف یعنی آسانی کے معنی یہ ہیں کہ پہلی امتوں میں دیت کا حکم نہ تھا بلکہ قصاص ہی لیا جاتا۔ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے دیت کی اجازت عطا فرماکر آسانی کردی۔ (قرطبی) اور پھر اس کے بعد جو زیا دتی کرے یعنی دیت پر راضی ہوجانے یا خون معاف کردینے کے بعد بھی قاتل کو مار ڈالے تو اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔ حدیث میں ہے اگر کوئی شخص مارا گیا یا زخمی ہو اتو اسے تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔ قصاص لے یادیت یا معاف کردے۔( فَإِنْ ‌أَرَادَ ‌الرَّابِعَةَ ‌فَخُذُوا ‌عَلَى ‌يَدَيْهِ) ۔ یعنی اگر وہ تین کے علاوہ کوئی چوتھا فعل کرنا چاہے تو تم اس کے ہاتھ پکڑ لو اس کے لیے نار جہنم ہے۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ مسند احمد )