سورة الحجر - آیت 29

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

تو جب میں اسے درست کر چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک [١٩] دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1۔ اولا ً انسان کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر فرمایا۔ اب اس کے بعد اس کا قصہ ذکر فرمادیا۔ (رازی) یہاں آدم میں جو روح پھونکی گئی اس کی ” روحی“ فرما کر اپنی طرف نسبت کیا ہے تو یہ نسبت صرف تشریف و تکریم اور انسانی روح کا امتیاز ظاہر کرنے کے لئے ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت صالح کیا انٹنی کو ” ناقہ اللہ“ اور خانہ کعبہ کو ” بیت اللہ“ کہا گیا۔ (کذافی الشوکانی)۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : ” اپنی جان“ یعنی خاص جس میں نمونہ ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کا، علم اور تدبیر اور یاد حق کی اور لگائو اللہ سے۔ (از موضح)۔