رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے قابل احترام گھر کے پاس ایسے میدان میں لا بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں۔[٣٩] تاکہ وہ نماز قائم کریں۔[٤٠] پروردگار ! بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انھیں کھانے کو پھل مہیا فرما۔ توقع ہے کہ یہ شکرگزار رہیں گے
ف 11۔ یعنی خانہ کعبہ کے پاس۔ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد کی ہے جیسا کہ دعا کے الفاط سے معلوم ہوتا ہے۔ یا حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے وحی کے اشارہ سے وہاں حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کو بسایا ہو کہ یہاں کعبہ تعمیر ہوگا اور اس بنا پر دعا میں یہ الفاط کہدئے ہوں۔ (ابن کثیر۔ شوکانی)۔ ف 12۔ وہ تیرے اس گھر کا حج اور عمرہ کرنے کے لئے اس کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے ” افئدۃ من الناس“ کہا کہ کچھ لوگوں کے دل اس طرف جھک جائیں اور اگر افئدۃ الناس۔ (لوگوں کے دل) کہتے تو ایرانی، رومی الغرض سب لوگ لپکے پڑتے اور مکہ میں جگہ نہ ملتی۔ (ابن کثیر)۔ ف 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی یہ دعا قبول فرمائی، چنانچہ ہر سال دنیا بھر کے لاکھوں آدمی مکہ معظمہ کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ پھر یہ بھی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی اس دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں طرح طرح کے پھل اور غلے وہاں پہنچتے رہتے ہیں حالانکہ خود وہاں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی۔ اس میں اشارہ ہے کہ مومن کو چاہیے کہ اسبابِ دنیا کے حصول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عبادتِ الٰہی کو اپنا مفصد بنائے۔ (رازی)۔