يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ
جو لوگ ایمان لائے انھیں اللہ قول ثابت (کلمہ طیبہ) سے دنیا کی [٣٤] زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی رکھے گا اور جو ظالم ہیں انھیں اللہ بھٹکا [٣٥] دیتا ہے۔ اور اللہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے
ف 4۔ یعنی دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں کلمہ شہادت اور عقیدہ توحید پر ثابت قدم رکھتا ہے بعض مفسرین (رح) نے ” دنیا کی زندگی“ سے مراد قبر کا اور آخرت سے مراد قیامت کے دن کا حساب لیا ہے یعنی قبر میں جب مومن سے عقیدہ توحید اور دین کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو وہ بدوں کسی تردد کے نہایت یقین اور پختگی سے جواب دیتا ہے اور کافر و منافق کی طرح ھالا ادری (افسوس میں نہیں جانتا) نہیں کہتا۔ قبر میں منکر و نکیر (فرشتوں) کا آنا، ان کا مردہ سے اس کے عقیدہ کے بارے میں سوال کرنا اور اس موقع پر مومن کا ” عقیدہ توحید“ پر ثابت قدم رہنا صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً براء (رض) بن عازب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : مسلمان سے جب قبر میں سوال کیا جاتا ہے تو وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔ یہی مراد ہے اس آیت : يُثَبِّتُ ٱللَّهُ الخ سے۔ (صحیحین) تنبیہ: امام سیوطی (رح) نے ’’شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور“ میں یہ سب حدیثیں جمع کی ہیں۔ ف 5۔ وہ قبر میں اور آخرت کے روز فرشتوں کے سوالات کا صحیح جواب نہیں دے سکیں گے بلکہ ہائے وائے کرتے رہیں گے۔ یہ مضمون بھی متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : قبر میں جو کوئی مضبوط بات کہے گا ٹھکانا ٹھیک پاویگا، اور جو بچلی (غلط) بات کرے گا خراب ہوگا۔ (موضح)۔