وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
اور اگر قرآن ایسا ہوتا کہ اس (کے زور) سے پہاڑ چلائے جاسکتے یا زمین کے طویل فاصلے فوراً طے کئے جاسکتے یا اس کے ذریعہ مردوں [٤١] سے کلام کیا جاسکتا، تو بھی یہ کافر ایمان نہ لاتے بلکہ ایسے سب امور [٤٢] اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ کیا اہل ایمان (ابھی تک کافروں کی مطلوبہ نشانی آنے سے) مایوس نہیں ہوئے کیونکہ اگر اللہ چاہتا تو (نشانی کے بغیر بھی) تمام لوگوں کو ہدایت دے سکتا تھا۔ اور کافروں کو تو ان کی کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت پہنچتی ہی رہے گی یا ان کے گھر کے قریب اترتی [٤٣] رہے گی تاآنکہ اللہ کا وعدہ (عذاب) آجائے۔ یقیناً اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا
ف 4۔ تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے۔ اتنی عبارت مخدوف ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے نبی ﷺ سے کہا اے محمد ﷺ اگر آپ ﷺ اپنے دعوائے نبوت میں سچے ہیں تو ہمارے اسلاف کو زندہ کرکے ہمارے سامنے لاکھڑا کریں تاکہ ہم ان سے بات چیت کریں اور مکہ کے ان پہاڑوں کو جنہوں نے ہمیں بھینچ رکھا ہے ذرا سرکادیں تاکہ جگہ کھل جائے۔ بعض مسلمانوں کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کا مطالبہ پورا ہوجائے۔ شاید ایمان لے آئیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر کسی قرآن سے یہ کام ہوئے ہوتے تو اس قرآن سے پہلے ہوجاتے۔ اس سے مقصد قرآن کی عظمت کو ظاہر کرنا ہے۔ (ابن کثیر۔ روح) ف 5۔ یعنی جن نشانیوں کا یہ لوگ مطالبہ کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قادر ہے کیونکہ اسے ہر چیز کا اختیا رہے مگر اس موقع پر ان نشانیوں کا دکھاتا بے سوہ ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ اتنے سرکش اور ضدی ہیں کہ یہ نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ ف 6۔ یا کیا ابھی تک مسلمان ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے حالانکہ وہ جانتے ہیں۔ ف 7۔ یعنی ہدایت تو مشئیت الٰہی پر موقوف ہے جو ان نشانات کے دکھائے بغیر بھی ہوسکتی ہے۔ (۔۔۔) ف 8۔ یعنی یہ کفار مکہ نشانیوں کو دیکھ کر مان لینے والے نہیں ہیں۔ یہ مانیں گے تو اس طرح کہ ان کے کرتوتوں کی سزا میں آئے دن کوئی نہ کوئی آفت ان پر نازل ہوتی رہے جیسے قتل، قید، قحط یا بیماری وغیرہ۔ چنانچہ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : لیکن کافر مسلمان یوں ہوں گے کہ ان پر آفت پڑتی رہے گی ان پر پڑے یا ہمسایہ پر۔ جب تک سارے عرب ایمان میں آجائیں۔ یہی وہ آفت تھی جہاد مسلمانوں کے ہاتھ۔ (موضع) ف 9۔ یعنی وہ آفت ان کے آس پاس والوں پر اترے گی اور وہ ان کا حال دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔ ف 10۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا۔ قریش میں سے بعض لوگ مارے گئے بعض قید ہوئے یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوا یعنی مکہ فتح ہوا۔