سورة الرعد - آیت 22

وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جنہوں نے اپنے پروردگار کی رضا کے لئے صبر کیا' [٣٠] نماز قائم کی اور اللہ نے جو کچھ انھیں دے رکھا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ [٣١] خرچ کیا اور برائی کا بھلائی [٣٢] سے جواب دیا یہی لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا گھرہے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2۔ یعنی ریاکاری یا شہرت کے لئے نہیں بلکہ محض رضائے الٰہی کی طلب کے لئے۔ ” صبر کیا“۔ اور نیک اعمال پر ثابت قدمی دکھائی۔ ف 3۔ اگر ریاکاری کا اندیشہ نہ ہو تو پوشیدہ طور پر صدقہ دینا افضل ہے اور حدیث میں ” سرا“ صدقہ دینے والے کو ان لوگوں میں شمار کیا گیا ہے جن کو قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی۔ (روح)۔ ف 4۔ یعنی کوئی ان پر کتنا ہی ظلم کرے وہ اس کے جواب میں عدل و انصاف ہی کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے : تم اپنے عمل کو لوگوں کے تابع نہ بنائو اور یوں نہ کہو : اگر وہ ہم سے بھلائی کریں گے تو ہم بھی بھلائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے بلکہ اس طریقہ پر کاربند ہوجائو کہ اگر لوگ بھلائی کریں، تب تو تم بھلائی کرو اور اگر وہ برائی کریں تب بھی تم ظلم و زیادتی نہ کرو یا اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ نیک عمل کرکے برے عمل کو مٹادیتے ہیں جیسے فرمایا : ان الحسنات یذھبن السیات۔ کہ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اذ عملت سیئۃ اعمل بعجبھا حسنہ لمعھا السر بالسرا والعلابۃ بالعلانیۃ۔ جب تم کوئی برا کام کرو تو اس کے بعد نیک کام کرو وہ اسے مٹا دے گا، پوشیدہ گناہ کو پوشیدہ نیکی سے اور ظاہری گناہ کو ظاہری نیکی سے مٹائو۔ (معالم، روح)۔