اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ
اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر بلند کیا جو تمہیں نظر آتے ہوں [٢] پھر اس نے عرش [٣] پر قرار پکڑا اور سورج اور چاند کو (ایک خاص قانون کا) پابند بنایا (اس نظام کی) ہر چیز ایک مقررہ مدت [٤] تک کے لئے چل رہی ہے۔ وہی اس کائنات کے نظام کی تدبیر [٥] کرتا ہے اور اپنی نشانیاں تفصیل سے بیان کرتا ہے تاکہ تم لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات [٦] کا یقین کرو
ف 3۔ یعنی تم ان آسمانوں کو دیکھ رہے ہو کہ ان میں کوئی ستون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت اور امر سے انہیں تھام رکھا ہے جیساکہ دوسری آیت میں ہے : İ وَيُمۡسِكُ ٱلسَّمَآءَ أَن تَقَعَ عَلَى ٱلۡأَرۡضِ إِلَّا بِإِذۡنِهِĬ ۔ اور وہ آسمان کو زمین پر گر پڑنے سے روکے ہوئے ہے مگر اس کی اجازت سے۔ (حج :65) اس صورت میں ” تَرَوۡنَهَا“ میں ھا ضمیر کا مرجع سَّمَٰوَٰتِ ہوں گے اور یہ جملہ مستانفہ ہوگا یا حال مقدرہ۔ اور اگر اسے عَمَد(ستونوں) کے لئے قرار دیا جائے تو ترجمہ یہ ہوگا“ بغیر ایسے ستونوں کے جو تمہیں نظرآئیں“۔ مطلب یہ ہے کہ ستون تو ہیں مگر تمہیں نظر نہیں آتے علمائے تفسیر نے آیت کے دونوں مفہوم بیان کئے ہیں واللہ اعلم (ابن کثیر۔ روح)۔ ف 4۔ یعنی قیامت تک یا اپنا دورہ مکمل کرنے تک واضح رہے کہ سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں پورا کرتا ہے۔ قرآن نے جن حقائق کو ضمنی طور پر ذکر کیا ہے موجودہ سائنسی تحقیقات پر ان کو نہیں پرکھ سکتے۔ سائنسی نظریات میں تو آئے دن تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور قرآن و صحیح حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ غیر متبدل اور لاریب فیہ ہے۔ ف 5۔ یعنی تم یہ سمجھ لو کہ جس خدا نے ایسی عظیم الشان مخلوقات کو پیدا کیا، اس کے لئے تمہیں دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟