الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
کہ جب انہیں کوئی مصیبت آئے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ : ہم (خود بھی) اللہ ہی کی ملک ہیں۔[١٩٦] اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے
ف 6: مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے انسان کو اذیت پہنچے خواہ کتنی معمولی کیوں نہ ہو۔ (قرطبی۔ شوکانی) ﴿إِنَّا لِلَّهِ ﴾۔۔ کلمہ استر جاع ہے حضور قلب کے ساتھ یہ کلمہ زبان سے کہا جائے تو سہی اظہار عبودیت بھی ہے اور دوبارہ زندہ ہو کر جزائے اعمال کا اعتراف بھی۔ (قرطبی۔ شوکانی) اور آیت İإِذَآ أَصَٰبَتۡهُم مُّصِيبَةĬ میں کلمہ اذا میں اشارہ ہے کہ مصیبت پہنچتے ہی صبر کرنا اور یہ کلمہ کہنا چاہیے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے(إنَّما الصَّبرُ عندَ الصَّدمةِ الأولَى (بخاری) کہ مصیبت جب تازہ ہو تو صبر ہے مصیبت پرا ستر جاع کی احادیث میں فضیلت بھی آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر مصیبت پر إِنَّا لِلَّهِ ۔۔۔ کے بعد یہ دعا بھی پڑھی جائے(اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي هَذِه ِوَأَخْلُفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا) (اے للہ مجھے اس مصیبت کا اجر دے اور اس کے بدلے مجھے اس سے بہتر عطا فرما) تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے (ابن کثیر۔ بحوالہ مسلم )