فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
جب اس ( زلیخا) نے ان کی مکارانہ [٢٩] باتیں سنیں تو انھیں بلاوا بھیج دیا اور ان کے لئے ایک تکیہ دار مجلس ضیافت تیار کی اور ہر عورت کے سامنے ایک ایک چھری رکھ دی [٣٠] اور یوسف سے کہا کہ تم ان کے سامنے نکل آؤ۔ جب ان عورتوں نے انھیں دیکھا تو (حسن میں) فائق تر سمجھا اور (پھل کاٹتے کاٹتے) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے اور بے ساختہ بول اٹھیں کہ یہ انسان نہیں یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے
ف 2۔ یعنی ایک ایسی محفل جس میں ٹیک لگانے کے لئے تکیوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ (از ابن کثیر)۔ ف 3۔ یعنی چھریاں دی تھیں پھل کھانے کو لیکن ان کا حسن دیکھ کر ایسے بے خود ہوگئیں کہ چھریاں ہاتھوں پر چل گئیں اور وہ کٹ گئے۔ (کذافی الروح)۔ بعض نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یہاں ” أَكۡبَرۡنَهُ‘ کے معنی حیض آنا کے ہیں یعنی شدت شہوت کی وجہ سے انہیں حیض آنا شروع ہوگیا۔ چنانچہ واحدی فرماتے ہیں کہ جب عورت کے اندر جنسی خواہش زور پکڑتی ہے تو اسے حیض آنے لگتا ہے ابو عبیدہ، طبری اور دیگر محققین (رح) نے اس معنی کا انکار کیا ہے کہ لغت میں یہ معنی معروف نہیں ہے اور حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت ضعیف ہے اور جو شاہد پیش کیا گیا ہے وہ بناوٹی ہے۔