سورة البقرة - آیت 154

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوجائیں انہیں مردہ نہ کہو۔ [١٩٤] کیونکہ وہ (حقیقتاً) زندہ ہیں مگر تم (ان کی زندگی کی کیفیت کو) [١٩٤۔ ١] سمجھ نہیں سکتے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5 : اوپر کی آیت میں اقامت دین کے لیے صبر وصلوۃ سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے اب یہاں جہاد کی ترغیب ہے۔ ( کبیر) جب غزوہ بدر میں کچھ صحابہ (چودہ) شہید ہوگئے تو بعض لوگ کہنے لگے فلاں مرگیا۔ اس سے زندگی کا عیش وآرام چھن گیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شہدا کے متعلق کفا رنے اس قسم کی باتیں کیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فتح البیان، کبیر) شہیدوں کو بر زخی حیات حاصل ہے اور احادیث سے ثابت ہے کہ ان کی روحیں جنت میں عیش وآرام سے بسر کر رہے ہیں (دیکھئے آل عمران حاشیہ آیت 169۔170) اور قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد برزخ ( قبر) میں ہر شخص کو زندگی حاصل ہے۔ دیکھئے سورت غافر حاشیہ آیت 11۔46) سورت نوح آیت 25، ابراہیم 27) مگر مومن کی روح راحت میں ہے اور کافر کی روح کو عذاب ہورہا ہے مروی ہے( القبْرُ روضةٌ من رياضِ الجنَّةِ أو حُفرةٌ من حُفرِ النَّارِ) (مشکوہ) حا فظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہر مومن کی روح جنت میں چلی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔( نَسَمةُ المُؤمنِ طَيرٌ تُعلَّقُ بشَجرِ الجنَّةِ حتَّى يُرجِعَها اللهُ إلى جسَدِه) (مسند احمد) کہ ہر مومن کی روح پرند کی شکل میں جنت میں درختوں میں جھولتی ہے اور یہ بزخی زند گی انبیاء علیہم السلام کو علی الو جہ الاکمل حاصل ہے مگر شہدا کی تعظیم وتکریم کے لیے قرآن نے خصو صیت سے ان کو أَحۡيَآء کہا ہے۔ (ابن کثیر )