سورة ھود - آیت 88

قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

شعیب نے کہا : اے میری قوم! بھلا دیکھو! اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے ایک واضح [٩٩] دلیل پر ہوں اور مجھے اللہ نے اچھا رزق بھی [١٠٠] عطا کیا ہو (تو میں کیسے تمہارا ساتھ دے سکتا ہوں؟) میں نہیں چاہتا کہ جس بات سے میں تمہیں منع کرتا ہوں خود ہی اس کی خلاف ورزی کرنے لگوں۔ میں تو جہاں تک ہوسکے اصلاح ہی چاہتا ہوں اور مجھے توفیق نصیب ہونا تو اللہ ہی کے فضل سے ہے۔ میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7۔ تو میرے لئے یہ کیسے جائز ہے کہ میں تمہیں نیکی کا حکم نہ دوں اور برائی سے منع نہ کروں؟ اس آیت میں ” رزق حسن“ کا لفط دوہرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک نبوت اور علم حق کے معنی میں اور دوسرے حلال روزی (ذریعہ زندگی) کے معنی میں، کہتے ہیں کہ حضرت شعیب (رض) خود ایک مالدار آدمی تھے۔ (فتح القدیر)۔ ف 8۔ یعنی یہ جو میں تمہیں ناپ تول میں بے ایمانی کرنے سے روک رہا ہوں، اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمہیں تو اس سے باز رہنے کی تلقین کروں اور خود اس کا ارتکاب کرکے خوب نفع اٹھاؤں بلکہ میں تم سے جو بات بھی کہتا ہوں، پہلے خود اس پر عمل کرتا ہوں۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) اور اس امت کے سلف صالح کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔ (از بن اکثیر)۔ ف 9۔ تاکہ تمہارا دنیا و آخرت میں بھلا ہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ خصلت ہے خد اکے نیک لوگوں کی کہ چڑانے سے برا نہ مانا اور اپنے مقدور بھر سمجھاتے رہے۔ ف 10۔ کہ آج تم کو یہ نصیحت کر رہا ہوں جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کی کامیابی کا دار و مدار اللہ ہی کی توفیق پر ہے۔