وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ
اور اس کی قوم کے لوگ دوڑتے ہو ان کے ہاں آگئے۔ وہ پہلے سے ہی بدکاری کیا کرتے تھے۔ لوط نے انھیں کہا : اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں [٨٨] ہیں جو تمہارے لئے پاکیزہ تر ہیں۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھی بھلا مانس نہیں؟
ف 2۔ ” بناتی“ (بیٹیوں) سے مراد ان لوگوں کو اپنی عورتیں ہیں کیونکہ نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے اور قوم کی ساری عورتیں نبی کی بیٹیاں ہوتی ہیں جیسا کہ نبی ﷺ کے بارے میں ارشاد ہے۔ النبی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجھہ امھاتھم (احزاب آیت 6)۔ یہی تفسیر راضح ہے گو بعض نے لوط (علیہ السلام) کی اپنی بیٹیاں بھی مراد ی ہیں کہ ان سے شادی کرلو۔ (کمانی الفوضح)۔