وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ہر ایک کے لیے ایک مقررہ جہت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔[١٨٥] سو تم نیک کاموں میں پیش قدمی کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کر لائے گا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
ف 7 : اب اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی ددر میں تعین قبلہ کے حکم کو اصول دین کی حیثیت حاصل نہیں ہوتی کہ اس میں رد وبدل نہ ہو سکے دوسرے احکام کی طرح اس میں نسخ ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ یہود صخرہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نصاری بیت المقدس کی شرقی جانب کی طرف رخ کرتے ہیں۔اسی طرح ان سےپہلی امتوں کے لیے بھی ایک سمت مقرر تھی اس اصل كےتحت تمہارے لیے کعبہ کو قبلہ قرار دے دیا تمہیں چاہیے کہ نیک کاموں میں سبقت کرو۔ (ابن کثیر۔ المنار) اس میں اشارہ ہے کہ نماز بھی اول وقت ادا کرنی چاہیے حدیث میں ہے (خَيْرُ الْأَعْمَالِ الصَّلَاةُ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا ) کہ سب سے بہتر عمل اول وقت پر نماز ادا کرنی ہے۔ (بخاری ومسلم) فائدہ۔ حافظ ابن تیمیہ نے’’ الردعلی المنطقیین (ص 29) اور حافظ ابن القیم نے’’ بدائع الفوا ئد (ج 4ص 168۔173) میں محققا نہ طور پر ثابت کیا ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ بنانا اجتہادی امرتھا اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی نبی کو حکم نہیں دیا کہ بیت المقدس کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑہیں،(کتاب الایمان ص 111) ف8 : یعنی آخر تم سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہونا ہے اور نیک کاموں کے متعلق تم سے پوچھا جائے گا۔ (قرطبی)