سورة البقرة - آیت 145

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان اہل کتاب کے پاس کوئی بھی نشانی [١٨٠] لے آئیں وہ آپ کے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے، نہ ہی آپ ان کے قبلہ کی پیروی کرسکتے ہیں بلکہ کوئی بھی دوسرے کے قبلہ کی [١٨١] پیروی کرنے والا نہیں اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس علم کے بعد، جو آپ کے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے [١٨٢] تو یقیناً آپ کا شمار ظالموں میں ہوگا

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یعنی وہ کعبہ کے قبلہ ہونے کو خوب جانتے ہیں مگر ان کا عباد اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبلہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ف 2 اور آپ بھی حکم وحی کے پابند ہونے کی وجہ سے ان کے قبلہ کو اختیار نہیں کرسکتے۔ (شوکانی) ف 3 اور ان کے باہمی عباد کا یہ حال ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قبلہ کو پسند نہیں کرتے۔ یہود صخرہ کی طرف رخ کرتے ہیں اور نصاری بیت المقدس کی مشرق جانب کی طرف۔ (قرطبی) ف 4 اس کے مخاطب تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر مراد امت ہے اگر ایک شخص علم دین ہو کر اہل بد عت وہوی کی پیرعی کرتا ہے تو اس پر بھی عتاب ہے ( ابن کثیر۔ قرطبی) پھر کیا حال ہوگا ان علماء کا جو اہل بدعت کی مخالفت کی بجائے ا ان کی محفلوں (عیدمیلاد النبی، تعزیہ وغیرہ کے جلوس) میں شریک ہوتے ہیں۔ (المنار)