سورة ھود - آیت 40

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

یہاں تک کہ ہمارا (عذاب کا) حکم آپہنچا اور تنور [٤٦] ابلنے لگا تو ہم نے نوح سے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں کا ایک جوڑا (نر و مادہ) رکھ لو، اور اپنے گھر والوں کو بھی سوار کرلو بجز ان اشخاص کے جن کے متعلق پہلے بتا دیاجاچکا ہے (کہ وہ ہلاک ہوں گے) اور جو ایمان لائے ہیں، انھیں بھی سوار کرلو۔ اور وہ تھوڑے ہی لوگ تھے جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7۔ تَنُّورُ (بروزن تفعول) تھا حضرت نوح ( علیہ السلام) کے گھر میں، طوفان کا نشان بتا رکھا تھا کہ جب اس تنور سے پانی ابلے تب کشتی میں سوار ہوجائو۔ (موضح) جمہور مفسرین (رح) نے تنور سے یہی عام تنور مراد لیا ہے۔ لیکن حسب تفسیر ابن عباس (رض) ” تنور“ سے مراد روئے زمین ہے یعنی ساری زمین چشمہ آب بن گئی اور پانی اُبلنے لگا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے۔ و İوَفَجَّرۡنَا ٱلۡأَرۡضَ ‌عُيُونٗا Ĭ (القمر 12)۔ حتیٰ کہ تنورجو آگ کی جگہ ہوتے ہیں، پانی کے فوارے بن گئے۔ (ابن کثیر۔ روح) أَمۡرُنَاسے مراد عذاب کا حکم ہے کہ آسمان سے موسلا دھار پانی برسنے لگا اور زمین سے چشموں کی طرح پانی اُبلنا شروع ہوگیا دونوں طبقے مل گئے اور زمین غرقاب ہوگئی۔ (ت۔ ن) ف 1۔ موضح میں ہے یعنی ہر جانور کا ایک جوڑا۔ (جیسا کہ ” ٱثۡنَيۡنِ “ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے) رکھ لیا کشتی میں جس کی نسل رہنی مقدر تھی۔ (کذافی الروح)۔ ف 2۔ یعنی ان کی بیوی جس کا ذکر سورۃ تحریم میں آیا ہے اور ان کا بیٹا جس کے غرق ہونے کا ذکر آرہا ہے۔ ف 3۔ وہی جن کو قوم نے رزالے کہا۔ قرآن و حدیث میں ان کی تعداد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔